امریکی فضائیہت تعلق کے دوران مجھے اس بارے میں تحقیق کے لئے کہا گیا کہ فضائی ٹرانسپورٹ کے ہوا باز کیوں کم عمر پاتے ہیں اور ان کا پیشہ ورانہ دورانیہ بھی دوسرے تمام پیشوں کے مقابلے میں مختصر ہوتا ہے۔ اُس وقت تک یہی سمجھا جاتا تھا کہ اس کا باعث فضائی ارتعاش، ہوا باز کے کیبن میں نا موافق گیسوں کی موجودگی ، طویل وقت تک آکسیجن کی کم دستیابی یا محض اڑنے سے خوف ہے۔ ہماری تفتیش نے ثابت کیا کہ ان میں سے کوئی بھی وجہ مؤثر اور کارگر نہ تھی بلکہ اس کی وجہ ہوا بازوں کی بعد از پرواز سرگرمیاں تھیں ۔ کیونکہ اکثر انہیں دور دراز شہروں کے نز: یک واقع سنسان ہوائی اڈوں پر اتر نا پڑتا تھا۔ لامحالہ وہ اپنی تنہائی اور اداسی دور کرنے کے لئے کلب جانے ، مرغن اور فربہ کرنے والی خوراک کھانے اور دیگر تفریحی سرگرمیاں ڈھونڈ نے پر مجبور ہوتے تھے۔

یہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو پیش آنے والی صورتحال کی انتہا تھی۔ ذہنی پریشانی۔ بوریت اور تکان سے ہر کوئی چھٹکارا پانا چاہتا ہے۔ اس کے لئے ہمیں جتنی بھی فرصت اور عیش و آرام میسر آتا ہے اس میں اپنے آپ کو غرق کر ڈالتے ہیں۔ مزید سونے پہ سہا گہ ایسی اشتہار بازی دکھاتی ہے جو جذبات میں ہیجان برپا کر کے پھر اس کی تسکین ڈھونڈنے کی ترغیب دیتی ہے جس کے نتائج انتہائی تباہ کن ہوتے ہیں۔

رفتہ رفتہ جسم پر طاری ہونے والے اضمحلال کا ذمے دار عموما بڑھاپے کو ٹھہرایا جاتا ہے جبکہ اس کی اصیل وجہ بڑھا پا نہیں بلکہ سست اور کامل زندگی گزار کر اپنے آپ کو جسمانی طور پر ناکارہ اور ناقص بنا لینا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے سامنے سے گزرنے والا لڑ کھڑاتا ہوا بیف و نزار اور منی سا شخص ابھی 30 ، 35 سال کا ہی ہو ۔

اپنی بات کو اور زیادہ واضح کرنے کے لئے میں بوب کی مثال دیتا ہوں ۔ وہ بیگ فٹبال کا کھلاڑی تھا جو بعد ازاں آڑھتی بن گیا تھا۔ اس نے کھیلنا ترک کر دیا اور کہنا شروع کر دیا کہ اب تو میں تب ہی بھاگوں گا جب مجھے اپنی جان بچانا ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب اس کی حالت اتنی دگرگوں ہوگئی ہے کہ سیڑھیاں چڑھنے سے وہ یوں گھبراتا ہے گویا اسے پہاڑ پر چڑھنا پڑ رہا ہو۔ کھڑ کی کھونا بھی کار دار دھہرا۔ بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ ٹمٹی ہے کہ گئی ایک روز وہ خشک میوے کا ڈبہ کھولتے کھولتے گر پڑا۔ لیکن ڈبہ نہ کھلنا تھا نہ کھلا۔ اس گھمبیر صورتحال کے تدارک کے لئے جو کچھ اُس نے سوچا۔ نتائج کے اعتبار سے وہ مضحکہ خیز ہونے کے ساتھ ساتھ عبرت ناک بھی تھا۔ پہلے وہ ایک جسم میں گیا لیکن اس نے جلد ہی بھانپ لیا کہ وہ وزن اٹھانے والوں کا ساتھ دینے سے قاصر تھا۔ پھر اس نے دوڑ لگانے کی ٹھائی لیکن چند گز سے زیادہ نہ بھاگ سکا۔ اُسے ما ال اس درد یا تکلیف کا نہ تھا جو اسے بھاگنے سے ہوئی بلکہ یہ احساس جان لیوا تھا کہ میں سال پہلے وہ اس گراؤنڈ کے کئی کئی چکر لگا لیتا تھا اور اب یہ حال کہ ذرا سا بھا گنا بھی دوبھر تھا۔

اس کے بعد بوب نے سوچا کوئی کھیل شاید اس کی پریشانیوں کا مداوا ہو ۔ اس نے ٹینس کھیلتی چاہی لیکن دوسیٹ کے بعد ہی اس کی کہنی سوچ کر کیا ہو گئی۔ یہاں سے مایوس ہو کر اس نے فٹ بال کا رخ کیا لیکن صرف ایک گھنٹے کے کھیل نے ہی اسے پورے ہفتے کے لئے معذور کر دیا۔ یہ تو خیریت ٹھہری اور نہ دونوں میں سے کوئی ایک کھیل بھی اس کی جان لینے کے لئے کافی ہو سکتا تھا۔ بوب جیسی جسمانی حالت میں آپ کو کھیلوں کا نہیں سوچنا چاہیے۔ جب کسی شخص کو اچانک فٹ بننے کا شوق چرائے تو اسے ٹینس کا ساتھی نہیں ڈھونڈنا چاہیے۔ کیونکہ مقابلے میں ذہن پر دباؤ پڑتا ہے جو ایک کمز ور و نا تواں جسم کے لئے زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔ کچھ ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ ذہنی دباؤ کا بہترین علاج ورزش ہے۔ ماسوائے چند خصوصی صورتوں کے عمومی طور پر یہ درست نہیں۔ در حقیقت شدید ذہنی دباؤ میں ورزش سے گریز بہتر ہے۔ کیونکہ دباؤ نے پہلے ہی آپ کے جسم کو نچوڑ کے رکھا ہوا ہوتا ہے۔ مثلاً خدانخواستہ آپ کے کسی عزیز کا انتقال ہو گیا ہو یا آپ کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہو۔

تو ایک بھاری پریشانی میں جسم پر ورزش کا دباؤ ڈالنا کہاں کی دانشمندی ٹھہری۔ البتہ معمول کی پریشانیوں اور تفکرات سے چھٹکارہ پانے کے لئے ورزش مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اس سے مختلف افعال جسمانی کی تنظیم تو ہوتی ہے۔ جب آپ کے اوسان خطا ہوئے ہوں اور مایوسی نے چاروں طرف سے آگھیرا ہو تو آپ کو یوں لگتا ہے جیسے آپ کا جسم پرزے پرزے ہو کر ہوا میں منتشر ہوا پڑا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ آپ کا اعصابی نظام اپنا کام صحیح طرح سے کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ ورزش آپ کے ان بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو پھر سے اکٹھا کرتی اور جسم کی اصلاح کر کے اعصابی نظام میں جان ڈال دیتی ہے اور اسی طرح آپ کی شخصیت دوبارہ مجتمع اور فعال ہو جاتی ہے۔

اگر آپ اپنی حالت کو بدستور خراب رہنے دیں تو آپ کسی بھی قسم کے کھیل میں حصہ لینے کے یا تو قابل ہی نہیں رہتے یا زیادہ سے زیادہ درمیانہ کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کو کھیل بالکل نہیں کھیلنے چاہئیں۔ لیکن احتیاط ملحوظ خاطر رکھنا پڑیگی۔ مد مقابل ایسا ڈھونڈیں جس کی جسمانی حالت آپ سے بہتر نہ ہو اور آپ کو حد سے زیادہ پر جوش ہو کر بھی ہرگز ہر گز نہیں کھیلنا چاہیے اور ایک صحیح اور فٹنس پروگرام کے بارے میں تذبذب سے گریز کریں۔ سب سے پہلے تو آپ کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آپ کس قدرفٹ بننا چاہتے ہیں؟

اگر آپ اپنی موجودہ حالت برقرار رہنے میں ہی خوش ہیں تو آپ کو خاص قسم کی ورزشوں کی کوئی ضرورت نہیں اپنے پچھوں کو مضبوط رکھنے کے لئے دن بھر میں ایک دفعہ کسی بچے کو تھوڑی دیر کے لئے گود لینا یا گھر کاسودا سلف لے آنا ہی کافی ہے۔ اطمینان بخش فنفس کے تین مدارج ہیں۔ سب سے نیچے انتہائی کم درجہ ہے کیونکہ پھر اس سے نچلے درجے پر آپ کے جسمانی افعال بگڑ جاتے ہیں اور ساخت برقرار رکھنا بھی محال ہوتا ہے۔ دوسرے درجے پر ایسی عمومی فٹنس آتی ہے جس سے آپ کو کسی ناگہانی صورتحال میں اپنے آپ کو ضرورت کے مطابق ڈھال لینے اور روز مرہ کے کام کرنے میں دشواری پیش نہ آئے۔ سب سے اعلیٰ درجہ وہ ہے جس میں آپ اپنے آپ کو خاصی سخت پیشہ ورانہ یا تفریحی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے اہل بناتے ہیں۔ اس میں جسم کوخصوصی طور پر مضبوط بنانا پڑتا ہے۔ دوسرے درجے کی فٹنس حاصل کرنے میں آپ کو ہمارا ہفتے میں صرف 30 منٹ ورزش والا پروگرام کافی رہے گا۔ جس کے متعلق ہم دسویں اور گیارہویں باب میں تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔

سے نچلے درجے میں رہنے کے لئے آپ کو محض چند روز مرہ عادات اپنا نے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا۔ یہاں یہ قابل ذکر ہے کہ خواہ آپ انتہائی اعلیٰ درجے کے ایتھلیٹ بنا چاہتے ہیں یا بس اچھی فٹنس کے مالک بنا چاہیں تو ان روز مرہ عادات کو اپنانا اور معمول بنا نا خصوصی طور پر درجے لازمی ہے۔