ہوسکتا ہے ماضی کے کسی تلخ تجربے نے ہمارے ذہن میں بٹھا دیا ہو کہ ہر طرح کی ورزش تکلیف وہ ، خطرناک اور پر مشقت ہے۔ اور واقعتا ورزش کا خیال آتے ہی بیمار سے ہو جاتے ہیں۔ اکثر پیٹ خراب ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ آپ ورزش سے پہلے جو بھی سوچتے ہیں اسکا کار کردگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ آپ اگر سوچ سوچ کر ہلکان ہورہے ہوں تو بھی عین ممکن ہے کہ آپ کی کارکردگی بہتر ہو۔ کیونکہ ورزش کا نام سنتے ہی جو پریشانی اور خوف طاری ہوا، اس سے فورا ایک مادہ ایڈرینی لین پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے جس سے پٹھے کے سکڑنے کا عمل تیز تر ہو جاتا ہے ۔ اس مادے کے زیر اثر جو اضطراری کیفیت آپ پر طاری ہوتی ہے اسے ورزش سے پہلے غیر یقینی کیفیت کہا جاتا ہے۔ اگر آپ اس کو حادی نہیں ہونے دیتے تو ٹھیک رہتا ہے۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کارکردگی کے بارے میں پریشانی ہی بہتر نتائج حاصل کرنے کا موجب بھی ہوتی ہے ۔ مثلا میل پیٹن ، جن دنوں جنوبی کیلیفورنیا یو نیورسٹی کیطرف سے بھاگتا تھا ، وہ دنیا کا تیز ترین انسان تھا۔ لیکن اسے سخت مقابلوں سے پہلے ہمیشہ الٹیاں آنے لگتیں لیکن پھر بھی جیتتا ہی تھا۔ آپ کی ورزش سے قبل یا دوران ورزش سوچ دو مختلف عمل ہیں لیکن آپ کو اضطراری کیفیت یا واقعی بیمار ہونے میں فرق رکھنا پڑے گا۔ اگر آپ پر کوئی جراثیمی حملہ ہوا ہے جسکی وجہ سے آپ بیمار ہیں تو اس دن آپ کو ورزش کا ناغہ کرنا بہتر ہے اس طرح ورزش سے پہلے والی اضطراری کیفیت اور حقیقی بیماری میں فرق آپ پر واضح ہو گیا۔ جیسے ہی آپ ہاتھ پاؤں ہلانا شروع کریں گے۔ اضطراری کیفیت غائب ہو جائے گی۔

ورزش کے متعلق جنونی لوگ جب کسی ایسے شخص کو ورزش کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو انکی طرح مصیبتوں پر فریفتہ نہ ہو تو کچھ بھی حاصل نہیں ہو پاتا۔ مجھے ایک ایسے آدمی کے بارے میں علم ہے جو خواہ کچھ بھی ہو، ہر صبح آدھ گھنٹہ ورزش ضرور کرتا ہے چاہے وہ جتنا بھی تھکا ہارا ہوتی کہ بیمار بھی ہوتو وہ ناغہ نہیں کرتا ۔ غالباً وہ اس دن ہی صبح ورزش نہیں کرے گا جو اسکا دنیا میں آخری دن ہوگا تو در حقیقت اتنا جنونی ہونا غیر فطری بات ہے جس سے بجائے فائدے کے الٹا نقصان ہوتا ہے تھکا ماندہ یا بیمار ہونے کی بنا پر ورزش نہ کرنے سے کوئی آسمان تو نہیں ٹوٹ پڑے گا۔

اب میری مثال ہی لیجئے جس دن مجھے کچھ ہو میں ورزش نہیں کرتا ۔ ایک صبح میں اٹھا تو مجھے ایک عجیب سی بیماروں والی کیفیت سے پالا پڑ گیا ۔ میں نے اس روز ورزش نہ کی یہ سلسلہ یونہی ایک ہفتے تک جاری رہا۔ اور میں پورا ہفتہ ورزش کے نزدیک بھی نہ گیا ۔ میرے اسطرح کرنے سے مجھے جو کچھ بھی تھا اس کا قدرتی علاج ہو گیا۔ اور ہفتے کے بعد ورزش شروع کر کے ایک ہفتے کے اندر اندر پھر سے فٹ بن گیا ۔ اگر آپ باقاعدگی – ورزش کے عادی ہیں اور کسی وجہ سے ناغہ کرنا پڑ جائے تو اپنے آپ کو مجرم نہ سمجھیں ۔ لیکن یہ جانتا کہ کم تر صحت اور کم تر رجحان میں کیا فرق ہے، آپ کے لیے بیحد اہم ہے موخر الذکر کا آپ کی کارکردگی سے کوئی تعلق نہیں لہذا اس کے بارے میں فکر مند نہ ہوں۔

اپنے آپ کو ورزش کے لیے دہنی طور پر پختہ کرنا اشد ضروری ہے ۔ ڈیوڈ والسر کی اپیکس کے بارے میں مشہور فلم وڈئٹر آف ایٹ میں چھوٹا سا ٹکڑا ایک عظیم البتہ روسی وزن اٹھانے والے کے متعلق دکھایا گیا تھا۔ وہ بار بار وزن کی طرف آتا کچھ بڑبڑا تا سر ہلاتا اور پیچھے ہٹ جاتا۔ کئی دفعہ ایسا ہی ہوا۔ بالآخر وہ دوڑ کر وزن کی طرف آیا ، اسے اٹھایا لیکن وزن سمیت الٹا جاپڑا۔ دراصل وہ بھی آپ کی طرح گومگو کی کیفیت کا شکار تھا۔ یوں لگتا ہے جیسے کہ وہ وزن کو کہہ رہا ہو میں تمھیں ضرور اٹھاؤں گا اور جوا با وزن اسے کہتا ہوں ہر گز نہیں، مجھے مت اٹھاتا ” ورنہ پچھتاؤ گئے ایک طرح سے وزن نے اسے نفسیاتی طور پر ہرادیا تھا۔

میں نہیں چاہتا کہ آپ کے ساتھ بھی اوپر والی صورتحال کبھی پیش آئے ۔ آپ نہ تو کوئی بھاری بھر کم وزن اٹھانے لگے ہیں اور نہ ہی دوڑ میں وقت کو شکست دینے جا رہے ہیں بھلا یہ کیا ہوا کہ آپ وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں جس کے متعلق آپ کو یہ بھی پتہ نہیں کہ اس سے آپ کے اندرونی اعضاء پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ انسان کو وہی کام کرنا چاہیے جس کے لیے دینی طور پر تیار ہو اور یہ بھی یقین ہو کہ اس کے کرنے سے کوئی فائدہ ہی ہو گا نقصان نہیں۔