آرام کی حالت میں دل کی دھڑکن کم کرنے کا بہترین طریقہ، خلاف قیاس طور پر، اسے طویل ورزش کے دوران تیز تیز چلانا ہے۔ یہ مشقت دل کو مضبود بناتی ہے تا کہ آہستہ چل کر بھی وہ اپنا کام پورا کرلے۔ دل کی بی آہستہ دھڑکن، تربیت کا ضعف قلب کہلاتی ہے۔

طویل ترین فاصلے تک دوڑنے والے اور دوسرے سخت قوت برداشت والے کھیلوں کے کھلاڑیوں کی رفتار قلب یا رفتار نبض، مدھم ہوتی ہے۔ جبکہ بلند پایہ تھلیوں میں تو یہ 40 سے بھی کم ریکارڈ ہوئی ہے۔ جبکہ عام خیال یہ ہے کہ 40 سے کم دھڑکن کسی بیماری کا شاخسانہ ہے کیونکہ اس صورت میں دل سے کرنٹ گزرنے میں رکاوٹ پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور اعصاب کے اشارے ( سگنل ) دل کے رگ وریشے میں سے بمشکل گزر پارہے ہوتے ہیں۔

لیکن یہاں میں ایک ایتھلیٹ کا قصہ ضرور سناؤں گا جس نے صرف 34 فی منٹ کی رفتار سے متعلقہ معالج اور ماہر امراض دل کو حیران و ششدر کر دیا تھا۔ انہوں نے فی الفورا سے ورزش سے روک دیا ۔ لیکن پھر بڑے محتاط ٹیسٹ کروا کر انہوں نے یہ پایا اور قراردیا کہ اس کی رفتار قلب اس کے لئے بالکل صحیح اور معمول کے مطابق تھی۔ ورزش سے دل دو طرح مضبوط ہوتا ہے ۔ اول، دل کے پٹھے (مائیو کارڈیم ) کا معیار بہتر ہو جاتا ہے۔ دوم ہر دھڑکن کے دوران، ریشوں کے درمیان خون کو دل سے باہر دھکیلنے میں ہم آہنگی بڑھتی ہے۔ دل کچھ کچھ اس طرح کام کرتا ہے جیسے آپ ایک گیلے تو لئے کو نچوڑتے ہیں۔ اس عمل کو سمجھے کے لئے ایک تجربہ کرتے ہیں ( پہلے بھی یہ مثال دی جا چکی ہے ) ایک ہاتھ کی انگلیاں اکٹھی کرکے دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی میں رکھیں اور انگلیوں سے دبائیں بالکل جیسے دل کا ٹھہ خون کو دباتا ہے۔ اگر آپ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ انگلیوں کو یکساں قوت سے دبائیں گی تو یہ انگلیاں ربی اور کھٹی ہوئی محسوس ہونگی ۔ اگر آپ کی انگلیوں کا دباؤ کمزور اور غیر مساوی ہوگا تو دوسرے ہاتھ کی انگلیاں اتنے زور سے تمہیں دیں گی۔ دبانے والی انگلیاں، دل کے ریشوں کے ایک سمجھے کی مثال ہیں اگر تمام ریشے مل کر مکمل ہم آہنگی کے ساتھ مسلسل کام کریں گے تو ہر ریشے کا کم زور لگے گا ۔

ریشے بھی چھلیوں کی طرح ہوتے ہیں اور انہیں تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جب انہیں استعمال نہیں کیا جاتا تو وہ کمزور اور نا کارہ ہو جاتے ہیں۔ اگر کچھ ریشے ست پڑ جائیں تو باقی ریشوں کو زیادہ زور لگانا پڑتا ہے تا کہ مطلوبہ مقدار میں دوران خون کو بحال رکھا جاسکے۔ ورزش سے خون کی زیادہ مقدار وریدوں کے ذریعے دل میں واپس آتی ہے جو دل کو دوبارہ دھر کنے پر مجبور کرتی ہے یعنی ایک طرح سے دل میں مزاحمت پیدا ہوتی ہے۔اس مزاحمت سے دل مضبوط اور توانا ہوتا ہے۔

دل کو بھی درست رہنے کے لئے اوور لوڈ یا زائد کار کردگی کے بوجھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس اور اوڈ کو حاصل کرنے کے لئے دل کو اس رفتار سے زیادہ تیز دھڑکنا چاہیے جس سے وہ روز مرہ کی عام حرکات و سکنات کے دوران دھڑکتا ہے۔ آپ کا مقصد 120 دھڑکن فی منٹ کی رفتار پر دل کو لانا اور چند منٹ مسلسل اسی حالت میں رکھنا اور تقریبا روزانہ ایسے ہی کرنا ہے۔ ہلکی ورزش، بالکل نہ کرنے سے تو بہتر ہے لیکن اس سے دل کی قوت کو بڑھانے میں کوئی مدد نہیں ملتی۔

دل کا مقصد خون کو شریانوں سے وریدوں کی طرف دھکیلنا ہے اور یہ ایک پمپ کی طرح کام کرتا ہے۔ جتنا خون وہ ایک منٹ میں دھکیلتا ہے اسے ٹوٹل کارڈ ٹیک آؤٹ پٹ ، یا دل کی مجموعی کار کردگی ، کہا جاتا ہے۔ آپ کے دل کی رفتار ہی دوران خون کو بڑھانے کا بڑا ذریعہ ہے۔ مدھم سے درمیانی رفتار تک دل کے دوران خون کو سٹروک والیوم ( یعنی ایک دھڑکن کے دوران خون کی مقدار جو شریانوں میں دھکیلی جاتی ہے) کو بڑھانے سے تیز کرتا ہے۔ 110 دھڑکن فی منٹ کی رفتار تک آپ کو سٹروک والیوم سے بھر پور مددلتی ہے۔ اس سے زائد رفتار کی قلب پر یہ مدد بتدریج کم ہو جاتی ہے۔ اگر آپ کی صحت اچھی نہیں ہے تو 130 کے بعد دوران خون کو بڑھانے کے لئے صرف دل کی دھڑکن پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔ اتنی رفتار تک آ جانے کے بعد دل اتنی تیزی سے دھڑک رہا ہوتا ہے کہ اسے کافی مقدار میں خون بھرنے کی مہلت ہی نہیں ملتی۔ لہذا خون کی جو مقدار باہر دھکیلی جاتی ہے وہ دل کی فی منٹ دھڑکنوں کے حساب سے براہ راست کم و بیش ہوتی رہتی ہے۔ اور اس حالت میں دل سے یہ توقع رکھنا کہ شریانوں اور ریدوں کا سسٹم بھی چلائے اور سٹروک والیوم اور نبض کی رفتار میں اضافے کے ساتھ ساتھ آؤٹ پٹ کو بھی بڑھائے رکھی، بڑی زیادتی ہے۔ س مرحلے پر فٹنس کا کردار رو بہ عمل ہوتا ہے۔

اگر آپ خوب فٹ ہیں تو سٹروک والیوم کی امداد کو 140 دھڑکن فی منٹ تک پہنچا سکتے ہیں کیونکہ دل کے ریشوں میں ہم آہنگی موجود ہے۔ اگر دل پوری طرح فٹ نہیں تو سٹروک والیوم کی امداد 120 پر ہی ختم ہو جائے گی۔ اسی طرح 170 سے 180 دھڑکن فی منٹ پر کارڈ تیک آؤٹ پٹ میں مزید اضافہ نہیں ہو پاتا خواہ آپ کا دل جتنا بھی تیز دھڑک لے کیونکہ آپ پہلے ہی وریدوں کے ذریعے خون کی واپسی کو آخری سطح تک لا چکے ہوتے ہیں۔

دل ایک منٹ میں 200 سے زائد دھر کن فی منٹ تک پہنچ سکتا ہے بلکہ ورزش کے دوران تو 230 بھی ریکارڈ کی گئی ہے۔ انفرادی طور پر ہر ایک کی اپنی اپنی حدود ہیں۔ اس کی کوئی اہمیت نہیں اگر آپ 220 تک جاسکتے ہیں اور میں 210 اور کوئی صرف 190 تک۔ بہت سے نامورا ایتھلیٹ 190 فی منٹ سے اوپر تک نہیں پہنچ پاتے ۔ دل کی زیادہ سے زیادہ دھر کن فٹنس کا معیار ہرگز نہیں حتی کہ طویل عرصے تک ورزش بھی آپ کے دل کی تیز ترین دھڑکن کو بڑھانے میں ناکام رہتی ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ یہ گھتی جاتی ہے۔ اس بارے میں سویڈن میں کافی لوگوں پر تجربات نے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہاں اوسطاً ہر شخص کالا زیادہ تیز دھڑکن میں 1 دھڑکن فی منٹ سالانہ کی کمی ہو جاتی ہے۔ جے جسکی کوئی قابل فہم سامنے نہیں آئی۔ لیکن اس سے آپ کی صلاحیتوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اثر ایک عام اصول کے مطابق زیادہ تر بالغ افراد کی اوسط زیادہ سے زیادہ دھتر کن ، 220 میں سے عمر منہا کر کے معلوم کی جاسکتی ہے۔ یہ کوئی مثالی بات نہیں اور نہ ہی منتہائےمقصود کہ اس کے لئے مقابلہ کیا جائے۔ یہ تو بس عمر کے مختلف حصوں میں زیادہ سے زیادہ دھڑکن کے متعلق صرف خیالی تخمینہ ہے۔