اگر متحرک لوگوں میں مذکورہ بالا تمام خوبیاں موجود ہوں تو ان میں دل کے دورے کم پڑنے چاہیئیں اور انکی عمر بھی طویل ہونی چاہیے منطقی طور پر ایسا ہونا چاہیے۔ اور شاید ایسا ہوتا بھی ہے۔ لیکن ابھی وسیع پیمانے کی تحقیق میں متحرک اور غیر متحرک لوگوں میں طوالت عمر کے فرق کا تعین ہونا باقی ہے۔ ورزش اور طوالت عمر مں مسلمہ تعلق واضح نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دل کی ملک بیماری سے بچنے کیلئے اتنی ہلکی ورزش کی ضرورت ہوتی ہے کہ زندگی میں ہر شخص کبھی نہ کبھی اتنا متحرک ضرور ہو جاتا ہے اور اسی طرح متحرک لوگ وقتا فوقتا غیر متحرک ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن ہمیں زیادہ باریکیوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ہم با قاعدگی سے ورزش نہ کر کے اپنا نقصان ضرور کرتے ہیں کیونکہ اسطرح ہم اپنے زندہ رہنے کی صلاحیت کو کم کر لیتے ہیں اور زندگی کے چاک وچوبند عرصے کو گھٹاتے اور شاید عمر کے دورانئے کو کم کرنے کا باعث بنتے ہیں۔

ہمیں ورزش اور دل کی بیماریوں کے بارے میں طبی تحقیق سے ایک اور بات کا پتہ چلا ہے۔ حال ہی میں سخت ورزش سے دل کی بیماریوں کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ورزش کا معیار اتنا بلند تھا کہ چند لوگ ہی اس کی تاب لا سکے زیادہ تر تحقیق مکمل ہونے سے قبل ہی لا بھاگ گئے۔ اس سے قطعی طور پر ثابت ہو گیا کہ اتنی سخت ورزش یا شدید غذائی پر ہیز لا حاصل ہیں۔ کسی کیلئے بھی ایسی ذمہ داریوں پر قائم رہنا جنہیں نبھایا نہ جاسکے خاصی کوفت اور شرمندگی کا سبب بنتا ہے اور جب آپ درمیان سے ہی الگ ہو جا ئیں تو اپنے آپ کو مجرم سمجھنے لگتے ہیں جس کا خمیازہ اکثر و بیشتر دہنی خلجان کے باعث بلند فشار خون اور معدے یا آنتوں کے زخموں کیصورت میں اٹھانا پڑتا ہے۔ تو اس ساری بحث سے سبق یہ ملتا ہے کہ ورزش اس سطح کی کرنی چاہیے جو آسان ہو ۔ روزانہ باقاعدگی سے تھوڑا سا چل لینا ایسی جو گنگ سے بدرجہا بہتر ہے جسے تادیر جاری نہ رکھا جا سکے ۔ اس لئے میں ہمیشہ ایسی ہلکی ورزش پر زور دیتا ہوں جسے کرنا آپ کے لئے مشکل نہ ہو اور آپ کا دل بھی اس میں نگار ہے۔