کچھ عرصہ پہلے لاس اینجلز پبلک سکول سسٹم نے مجھے بڑھاپے سے نبٹنے کی تدابیر یہ بوڑھے لوگوں کو سلسلہ وار لیکچر دینے کی دعوت دی۔ یہ لیکچر ز سکول ، ریٹائر منٹ گھروں اور رقص کے ہال میں ہوئے اور ہر بار تقریبا 500 افراد نے شرکت کی میں نے انہیں نہ صرف ورزش کے طریقے اور فوائد بتائے بلکہ انہیں یہ کہا کہ وہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے بھی اپنے منہ، گردن ،ٹانگوں اور بازوؤں کو میرے بتائے ہوئے انداز سے حرکت دیں اور نتائج خود ملاحظہ کریں۔ یقین کیجئے اس سے ان بزرگوں  کو اتنا فائدہ ہوا کہ انہوں نے ان برائے نام حرکات و سکنات کو معمول بنالیا، جس سے ان کی زندگی میں انقلاب بر پا ہو گیا۔

آپ پین کر حیران ہونگے کہ ان بزرگوں میں سے بعض کی عمریں 90 اور 100 سال کے درمیان تھیں لیکن بد قسمتی سے زیادہ تر عمر رسیدہ لوگ ایسے نہیں ہوتے اور کوئی ورزشی نہ کرنے کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ انکی کافی ورزش عام چلنے پھرنے سے ہی ہو جاتی ہے۔ جوں جوں وہ اور بوڑھے ہوتے جاتے ہیں انکا یہ تاثر بھی پختہ تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ کاہل اور غیر متحرک ہونے کیلئے عمر کو ایک بہانہ بنالیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں اتنا بوڑھا ہو گیا ہوں کہ ورزش نہیں کر سکتا جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ انہیں پر عزم رہتے ہوئے یہ کہنا چاہیے کہ میں اتنا بوڑھا ہوں کہ ورزش کر سکتا ہوں ۔

بعض خواتین و حضرات اگر کبھی ورزش کی طرف مائل بھی ہوں تو سنجیدہ رویہ نہیں اپناتے ۔ اسے بالکل آسان لیتے ہیں اور اتنے تھوڑے وقت کیلئے کرتے ہیں کہ انکی دل کی دھڑکن تیز ہوہی نہیں پاتی۔ ہر 100 امریکیوں میں سے بمشکل 3 ایسے ہوں گے جو کوئی منتظم فٹنس پروگرام کرتے ہوں گے ۔ جبکہ %85 کے پاس تو ورزش کا نیکر جیسا معمولی ترین سامان بھی نہیں ہوتا ۔ ان سب لوگوں کا مسئلہ وہی ہوتا ہے جو ایک بیماری سے صحتیاب ہوتے ہوئے مریض اور اعلیٰ ترین مقابلوں کیلئے تیاری کرنے والے ایتھلیٹ کا ہوتا ہے مریض یہ جانتا ہوتا ہے کہ اسے جلد از جلد صحتیاب ہونے کیلئے کیا چاہیے اور ایتھلیٹ کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسے چمپئن بننے کیلئے کیا درکار ہے۔ لیکن ان دونوں کے بیچ میں ایک عام آدمی عجب مخمصے میں ہوتا ہے ۔ اسے یہ تو معلوم ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ اسے اصل میں درکار کیا ہے۔

دراصل وہ یہ چاہتا ہے کہ پہلے سے زیادہ جوان لگے اور ساتھ ساتھ اس کی طاقت اور قوت برداشت میں بھی اضافہ ہو۔ یہ مقاصد حاصل کرنے کیلئے اسے جسم کی فالتو چربی گھٹانے ، پٹھوں کو مضبوط بنانے اور دل پھیپھڑوں کی قوت برداشت بڑھانا از بس ضروری ہے۔