فرض کریں وہ اوسط شخص آپ ہیں اور 100 حراروں کے فرق کا توازن اپنے حق صرف دو دنوں میں یا تو اپنی سے 100 حرارے کم کرلیں ( کافی کا ایک کپ جس میں چینی اور ملائی ملی ہوئی ہو یا ایک اونس پنیر ) یا ان 100 فالتو حراروں کو ورزش کے ذریعہ جلائیں ( 14 منٹ ٹینس کھیل کر یا 20 منٹ کی باغبانی کر کے ( مسئلہ حل ہو جائے گا ۔ اس طرح جب حرارے برابر ہو جائیں تو مزید صرف 100 حراروں کی کمی ، نقشے کو آپ کے حق میں کر دے گی ۔ کیونکہ آپکا جسم توانائی کے ذخیرے یعنی چربی کو جلانے لگ گیا ہے اصل میں چربی کے خلئے جسم میں فالتو خوراک کے ذخیرے ہیں جو ہنگامی حالات کیلئے متصور ہوتے ہیں ۔

مثلا قدیم زمانے میں جب انسان کی گزر اوقات شکار پر تھی تو بعض دفعہ ہفتہ ہفتہ کچھ نہ ملتا تو یہی چربی کے ذخیرے زندگی کو قائم ودائم رکھنے کے کام آتے تھے۔ لیکن خوراک با افراط میسر ہونے کی وجہ سے اب چربی کے ذخیرے غیر ضروری ہو گئے ہیں ویسے بھی چربی کے نقصانات خوفناک ہیں۔ موٹا آدمی نہ صرف دیکھنے میں بھدا اور غیر دلکش ہوتا ہے بلکہ بیماریوں سے بھی غیر محفوظ ہوتا ہے چربی کے لوتھڑوں میں خون کی نانیاں میلوں کے حساب سے درکار ہوتی ہیں لہذا خون دوسرے اعضاء سے کھینچ کھینچ کر بھی ادھر کو آتا ہے ۔ جس کا نتیجہ دل پر بوجھ میں اضافے کیصورت میں نکلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر ایک موٹا آدمی پچھلے آدمی کی نسبت کم عمر پاتا ہے۔ جب موٹا ہونے کی اتنی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہو تو نجانے کیوں ذہین لوگ اپنی طبعی عمر کو طویل کرنے کی بجائے موٹا ہونے کا خطرہ مول لے لیتے ہیں۔ لیکن قصور ان کا بھی نہیں اس کیلئے ہمیں بہت پیچھے جانا ہوگا۔ ایک نوزائید بچے کی فوری رد عمل ظاہر کرنے کی صلاحیت بڑی تیز ہوتی ہے جب اسے بھوک لگتی ہے تو وہ رونے لگ جاتا ہے اور دودھ ملتے ہی سیر ہو کر پینے کے بعد مزید دودھ پینا بند کر دیتا ہے اور اگر کوشش بھی کی جائے تو اور دودھ نہیں پیتا۔ اسی طرح وہ خوب پلتا بڑھتارہتا ہے اس کا اندرونی نظام اسے زندہ رہنے میں بڑی صحیح رہنمائی بہم پہنچاتا ہے۔ لیکن پھر اچانک ایسا ہونا شروع ہو جاتا ہے جس سے یہ توازن بگڑ جاتا ہے۔ بعض دفعہ ستم ظریفی یہ ہوتی ہے کہ حد سے زیادہ پیار کرنے والی ماں لاعلمی اور نادانستگی میں بچے کیلئے اتنی خطرناک اور صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے کہ الامان والحفیظ ۔ باپ، دایہ، اور معلم بھی اراد تا آنمیں شامل ہو جاتے ہیں۔

بچے کو زیادہ کھانے پر اکسایا جاتا ہے ، اور جب وہ ایسا کرتا ہے تو اسے شاباش ملتی ہے بلکہ انعام سے بھی نوازا جاتا ہے اس طرح سب مل کر بچے کی نفسیات بگاڑ دیتے ہیں اور اس کے موٹے اور غیر متناسب ہونے کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔ ہم سب کسی نہ کسی حد تک ایسے ہی بگڑے ہوئے بچے ہوتے ہیں اور نو عمری سے جوانی تک پہنچتے پہنچتے ہماری زیادہ کھانے کی عادت راسخ ہو چکی ہوتی ہے۔ چھوٹے ہوتے ہوئے ہمیں کہا جاتا تھا اپنی پلیٹ صاف کرو اب یہی آواز کچھ اور لو میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اگر کسی نے خاص طور پر کوئی چیز ہمارے لئے بنائی ہے تو خواہ بھوک ہو نہ ہو اور پہلے ہی شکم سیر ہوں، ہم کھا لینے میں تشکر محسوس کرتے ہیں۔ بھوک سے نجات کا جشن منانا اس حد تک ضروری سمجھا جاتا ہے کہ کھاتے کھاتے خواہ پھٹنے والے ہو جائیں ، ہاتھ رکنے کا نام نہیں لیتا۔

وزن کم کرنے کے کسی بھی پروگرام میں سب سے پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم اور محسوس ہو جائے کہ آج ہم جیسے بھی ہیں آمیں والدین ، دوستوں اور استادوں کی طرف سے ، خوب ٹھونس ٹھونس کر کھانے کی تاکید کا بہت بڑا حصہ ہے۔ لیکن کوئی بات نہیں ۔ ابھی اصلاح کرنے کیلئے وقت ہے۔ ہوش کے ناخن لیکر بسیار خوری سے پورا پورا اجتناب اور یکسر کنارہ کشی ہمیں مستقبل میں آنے والی بہت ہی گھمبیر پریشانیوں سے نجات دلا سکتی ہے۔