زندگی گزارنے کےعمل کو دو پہلو دیئے جاسکتے ہیں۔

1: دنوں کے حساب سے گزارنا
2: اعلی معیار سے گزارنا

اور یہ بات تو بغیر شک وشبے کے کہی جاسکتی ہے کہ اگر آپ ورزش کریں گے تو بہتر معیار کی زندگی گزار سکیں گے۔ ایک ٹریننگ کورس کے دوران ایک بڑی کارپوریشن کے افسر نے گلہ کیا کہ یونین کے نمائندوں سے مذکرات کے دوران ان کا عملہ ناکام رہتا ہے کیونکہ لیبر نمائندے جسمانی طور پر چاک و چوبند اور ہمارے لوگ ہست اور ڈھیلے ڈھالے ہوتے ہیں اور ظاہر ہے جسمانی فٹنس کے زور پر وہ لوگ آخر وقت تک پر جوش اور باہمت رہتے ہیں جبکہ ہمارے قوئی وہاں تک پہنچتے پہنچتے جواب دے چکے ہوتے ہیں۔ کیا اس کا کوئی حل ہے۔

میں نے کافی سوچ بچار کے بعد درمیانی عمر کے افراد (افسران عموماً عمر کے اس حصے میں پہنچنے کے قریب ہوتے ہیں یا پہنچ چکے ہوتے ہیں) کیلئے ٹریننگ کورس چنا جس میں بوسٹن کی کچھ کمپنیوں کے افسران اور ہارورڈ کے چند پروفیسر بھی شامل تھے۔ کورس کے دوران شرکا کے مختلف لیبارٹری ٹیسٹ کئے گئے جن سے مثبت تبدیلیوں کے اشارے ملے ۔ وہی افسر جو میرے پاس مسئلے کے حل کیلئے آیا تھا اس نے خصوصاً اپنی ہمت میں بڑا خوش آئند اضافہ ا محسوس کیا۔ اور کہنے لگا کہ آپ کے کورس سے پہلے میں اپنی کار کر دگی کی نچلی سطح پر تھا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ اس نچلی سطح سے بھی اوپر والے آدھے حصے پر کام کر رہا تھا۔ لیکن اب معاملہ اس کے برعکس ہے۔ کیونکہ اہلیت کے نچلے آدھے حصے سے ہی کام بخیر و خوبی چل جاتا ہے اور میں دن کے پچھلے پہر بھی صبح کی طرح ہی تازہ دم ہوتا ہوں ۔ قوت کے اس ذخیرے کے بل بوتے پر میں جو کچھ بھی کرتا ہوں اعتماد اور کامیابی کے یقین سے کرتا ہوں اور اب کبھی دوباره آدھا آدمی بننا پسند نہیں کروں گا ۔ مجھے یہ تو پتہ نہیں چلا کہ بعد میں مذاکرات کی میز پر قسمت نے اسکا کتنا ساتھ دیا لیکن مان اغلب یہی ہے کہ وہ کامیاب رہا ہو گا۔