جب آپ خون کی نالیوں سے کام لینا چھوڑ دیتے ہیں تو وہ بند ہو کر سکڑ جاتی ہیں ۔ یہاں تک کہ تقریبا غائب ہو جاتی ہیں۔ لیکن جیسے ہی انہیں دوبارہ متحرک کرتے ہیں تو وہ نئے سرے سے بتدریج بننا شروع ہو جاتی ہیں اور کھلی ہو کر پھر سے کارآمد ہو جاتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آجکل ماہریں قلب ایسے مریضوں کو جنہیں دل کا دورہ پڑ چکا ہو، دوبارہ معمول کی زندگی کی جانب واپسی اور دل کے دورے کی روک تھام کیلئے ، ورزش کی تلقین کرتے ہیں کیونکہ اس سے باریک ترین نالیوں کی تعداد میں معتد بہ اضافہ ہوتا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا دل جسے ورزش سے صحتمند بنا لیا گیا ہو، اس کے پاس باریک نالیوں کا بیحد و حساب ذخیرہ موجود ہوتا ہے جو کسی بڑی نالی کے بند کے بند ہونے کی صورت میں متبادل انتظام فراہم کرتا ہے۔ دل کی پرانی اور طویل بیماری کی علامات کئی طرح سے سخت ورزش کے اثرات سے ملتی جلتی ہیں مثلا دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے، پھیپھڑوں میں ہوا کی آمد ورفت بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجے میں بافت آکسیجن کی مطلوبہ مقدار سے محروم رہتے ہیں۔ لہذا ایسی ورزش سے جو جسم کو دل کی تیز دھڑکن کا عادی بنائے ، پھیپھڑوں میں ہوا کی آمد ورفت کو بڑھائے اور آکسیجن کی وافر مقدار میں کھپت کو ممکن بنا سکے مستقبل میں دل کے دورے سے نبرد آزما ہونے کیلئے جسم کو موثر طور پر تیار کیا جا سکتا ہے۔

گوشتی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ورزش سے عمر طویل ہو جاتی ہے لیکن اس بارے میں بیحد متین شواہد موجود ہیں کہ ورزش سے اس کا امکان ضرور ہے کہ آپ کی عمر طویل ہوسکتی ہے۔ سرجنوں اور ماہرین قلب کی متفقہ رائے ہے کہ ایسے مریض جن کا دوران خون جسم کے بیرونی آخری مقامات تک صحیح نہیں ہوتا اگر وہ بیماری کی ابتداء میں جسمانی طور پر فٹ ہوں تو وہ بیماری کے باوجود ایک معمول کی زندگی گزارنے کے زیادہ قابل ہوتے ہیں یہ نسبت ان کے جوفٹ نہ ہوں اور اول الذکر کا آپریشن بھی ثانی الذکر سے کامیاب رہتا ہے۔ کم از کم میں تو جس بھی ماہر قلب کو جانتا ہوں، وہ ورزش ضرور کرتا ہے

اس سلسلے میں ایک سرجن ڈاکٹر جیمز جیکسن کی مثال دینا بے محل نہ ہوگا۔ وہ ذیا بیطیس کے مریض ہیں لیکن اسے قابو میں رکھے ہوئے ہیں جس کیلئے انہیں انسولین کے ٹیکوں ، مناسب خوراک اور ورزش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے گھر میں انہوں نے ساکن بائیسکل رکھی ہوئی ہے جسے وہ ہر روز نبض کی زیادہ سے زیادہ 140 فی منٹ کی رفتار سے 20 منٹ تک چلاتے ہیں اور سکھ سے رہ رہے ہیں۔ اچھے اور کھلے موسم میں وہ جو گنگ بھی کر لیتے ہیں لیکن اس دوران بھی انکی نبض کی رفتار وہی لینی 140 فی منٹ ہی رہتی ہے کچھ عرصہ قبل انہیں طبی کانفرنسوں کے سلسلے میں دنیا کے کئی ممالک جانا پڑا۔ وہ اپنی سائیکل بھی ساتھ لیجانا چاہتے تھے لیکن یہ ممکن نہ تھا لہذا انہوں نے مجھ سے مشورہ مانگا۔ میں نے ریکارڈ میں سے پھر وہی کیبن میں کیجانے والی ورزشیں کھ بچا لیں اور تھوڑی بہت ترمیم کے ساتھ انہیں دے دیں۔ انہوں نے اس پر عمل کیا جس سے نہ تو انسولین اور نہ خوراک کے بارے میں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوئی اور انہوں نے اپنی شاندار جسمانی حالت کو برقرار رکھا۔ اب وہ اپنے مریضوں کو بھی آپریشن کے بعد بحالی کے لیے وہی پروگرام تجویز کرتے ہیں اور مریض ان سے بڑے خوش اور مطمئن ہیں۔

بعض ڈاکٹر جو خود میراتھن ریس (طویل ترین فاصلے کی دوڑ میں حصہ لیتے ہیں انکا خیال ہے کہ اس سے دل کی شریانوں کی بیماری کے خلاف قدرتی مزاحمت پیدا ہوتی ہے۔ جدید تحقیق سے پتہ چلا کہ دل کی بیماریوں میں ممکنہ خطرات کے سلسلے میں ورزش نہ کرنے کو اتنا اہم نہیں سمجھا جاتا جتنا کہ بلند فشار خون سگریٹ نوشی یا خون میں چربی کی زیادتی کو خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن علاج کے طور پر دوائیوں کے ساتھ ساتھ ورزش کی ہدایت ضرور کی جاتی ہے۔ جب ایک غیر متحرک شخص اپنے معمولات میں چلنے جیسی ہلکی ورزش شامل کر کے قدرے متحرک ہو جاتا ہے تو اس کے جسم میں کئی ایسی تبدیلیاں جنم لیتی ہیں جو دل کی بیماریوں کے خلاف مزاحمت کے سلسلے میں اہم ہیں مثلاً فشار خون میں کمی ، آرام کی حالت میں دل کی دھڑکن میں تخفیف ، پٹھوں بشمول دل کے پٹھے کی مضبوطی ، خون کی باریک نالیوں کی تعداد میں کثرت سے پھوں کو خون کی مناسب ترسیل، خون کی ماہیت میں بہتری جیسے آکسیجن کی فراوانی اور خلیہ بستگی کی پہچپاہٹ میں کمی (چپاہٹ میں زیادتی دل اور دماغ کی نالیوں میں رکاوٹ پیدا کر کے دل کے دورے اور فالج کا باعث بنتی ہے ) وغیرہ وغیرہ۔

ورزش اور طوالت عمر اگر متحرک لوگوں میں مذکورہ بالا تمام خوبیاں موجود ہوں تو ان میں دل کے دورے کم پڑنے چاہیئیں اور انکی عمر بھی طویل ہونی چاہیے منطقی طور پر ایسا ہونا چاہیے۔ اور شاید ایسا ہوتا بھی ہے۔ لیکن ابھی وسیع پیمانے کی تحقیق میں متحرک اور غیر متحرک لوگوں میں طوالت عمر کے فرق کا تعین ہونا باقی ہے۔