یونائیٹڈ سٹیٹس پبلک ہیلتھ سروس کے سربراہ ڈاکٹر سیموئیل فوکس نے بڑی جانفشانی سے امریکہ کی مہلک بیماری یعنی دل کی شریانوں میں رکاوٹ کی روک تھام میں ورزش کے کردار کا تعین کرنے کے لئے ملک بھر سے چیدہ چیدہ ڈاکٹروں اور ماہر بین ورزش کو جمع کیا جن میں، میں بھی شامل تھا۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس سلسلے میں ورزش کا ایک بالکل نئے پہلو سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ وہ یوں کہ اب تک تمام پروگرام ورزش کے زیر اثر ، دل کی کار کردگی پر زور دیتے رہے ہیں۔ لیکن میرا مشورہ ہے کہ اب دل پر ورزش کے فعلیاتی اثر کی تحقیق ہونی چاہیے۔ سابقہ نظریہ میں یہ بتایا جاتا تھا کہ اتنے وقت میں اتنے فاصلے تک دوڑتا ہے۔ جبکہ اب یہ کہا جائے کہ فاصلے کے ساتھ ساتھ یہ بھی مقرر کر دیا جائے کہ اس دوران دل دھڑکنے کی رفتار کیا ہوگی اور یہ جاننے کے لئے نبض کی گفتی سے کام لیا جائے ۔

ڈاکٹر فوکس اور گروپ کے دوسرے ساتھیوں نے مجھے نبض رفتار کے مطابق ورزش کنڑول کرنے کی افادیت کا عملی مظاہرہ کرنے کے لئے کہا۔ بس یہی ” نبض کی بنیاد پرورزش کی ابتدا تھی۔ میں کچھ عرصہ پہلے سے ہی نبض کی بنیاد پر اپنے ذاتی فٹنس پروگرام پر عمل پیرا تھا۔ ایک ماہر ورزش کی حیثیت سے میں مستقلاً لیبارٹری کے ذریعہ ورزش کے اثرات کی پیمائش کرنے اور اس کا ریکارڈ رکھنے کا عادی تھا۔ اسی دوران مجھ پر انکشاف ہوا کہ پیمائش کا سب سے آسان راستہ تو نبض ہے جس کے لئے بس اتنا کرنا ہے کہ دوسرے ہاتھ پر بندھی ہوئی گھڑی کے ذریعہ یہ معلوم کرنا ہے کہ نبض کی رفتار کے لحاظ سے آپ کی ورزش کیا نوعیت رکھتی ہے۔ میں تو اس سے مطمئن تھا لیکن سوال یہ تھا کہ کیا یہ طریقہ مختلف گروپوں پر تجربات کے لئے بھی اتنا ہی مفید ثابت ہوگا۔

میری ایک شاگر دلڈ میلا رائیسٹر جو کیلیفورنیا کے ہائی سکوٹر میں جسمانی تعلیم کی معلمہ تھی، نے اس کام کا بیڑا اٹھایا۔ مقصد یہ تھا کہ اگر ہائی سکول کی لا پرواہ لڑکیوں کو یہ سمجھایا جاسکے گا کہ ورزش کے مفید اثرات کو کیسے جانچا پرکھا جائے تو ہر ایک کو سمجھایا جا سکتا ہے۔ جاسکتا شروع شروع میں تو ہمیں یہ بھی نہیں معلم تھا کہ لڑکیاں صیح طور پر بغض گن بھی سکیں گی یا نہیں۔ اور انہیں نظام قلب و شرائین پر ورزش کے اثرات سے قطعاً کسی طرح کی دلچسپی بھی ہوگی ۔ اور کیا ان کا پختہ خیال ہے کہ بیڈ منٹن فنس کے لئے کارآمد ہے یا بس یونہی اسے کھیلنا چاہتی ہیں۔ لیکن نتائج بڑے حیران کن نکلے ۔ انہوں نے نہ صرف نبض کی گنتی میں دلچسپی لی بلکہ اسے سنا بھی صحیح ۔ اور انہوں نے نظام قلب وشرائین فٹنس کی اہمیت اور اس بارے میں بیڈمنٹن کے مفید ہونے کے متعلق گہری دلچسپی لی۔

نبض کی بنیاد پر ورزش کرنے کے خیال کو مقبول اسی صورت میں بنایا جا سکتا تھا اگر عام آدمی بھی اس پر مائل اور راغب ہو جب ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ ایسا ہی ہے تو فٹنس کے لئے نئی رائیں کھل گئیں۔ اور ہم اس قابل ہو گئے کہ بے دھڑک ” نئے نظریے کے مطابق پروگرام ترتیب دے سکیں