اب ہم جو کچھ آپ کو بتا ئیں گے اس میں ایک دن کا اب مکمل منظر نامہ ہے جس میں آپ کوئی بھی ورزش کئے بغیر ” کم از کم فٹس حاصل کر سکیں گے۔ “

جب آپ صبح سو کر اٹھیں تو خوب کھل کر زندگی کی بہترین جمائی اور انگڑائی لیں۔ اگر اس سے تمام جوڑوں کو ان کی انتہائی استطاعت تک کھنچاؤ مل گیا تو دن بھر کی کچھاؤ کی ضرورت پوری ہوگئی۔ اس کے بعد نہاتے وقت خوب زور سے صابن میں اور بعد میں آرام آرام سے پونچھنے کی بجائے رگڑ رگڑ کر پونچھیں کیونکہ کوئی بھی رگڑنے والا عمل دل اور شریانوں کے لئے اچھی ورزش ہے۔ تولئے سے خوب اچھی طرح جسم کو رگڑنے میں نہ صرف لطف آتا ہے بلکہ اس سے آپ کے دل کی دھڑکن بھی 20 1 فی منٹ تک ہو جاتی ہے۔

جب آپ اپنے کام یا دوکان پر جائیں تو لفٹ کی جگہ سیڑھیوں کا استعمال کریں۔ متحرک زینے پر سائن ہو کر کھڑے ہونے سے بہتر ہے کہ چلتی سیڑھیوں پر بھی چل کر اوپر جائیں اور نیچے اترتے ہوئے بھی اسی طرح کریں۔ گونیچے اترنے میں اوپر چڑھنے کی نسبت فائدہ صرف ایک تہائی ہوتا ہے لیکن پھر بھی یہ ایک اچھی ورزش ہے اس سے ٹانگوں سے بعض مخصوص پٹھوں کی ورزش ہو جاتی ہے۔ میرے ایک جاننے والے ہوا باز نے شکایت کی کہ اس کا جسم غیر متناسب ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری باہمی گفتگو نے مجھے بالآخر اس بات پر راغب کیا کہ ہوا بازوں میں پائی جانے والی پٹھوں کی کمزوری پر تحقیق کروں۔ لہذا ان کے لئے تجویز کئے جانے والے پروگرام میں یہ تاکید کی گئی کہ جب بھی موقع ملے جسم سے ضرور کام لیں۔ مثلاً جب بھی وہ ہوائی اڈے پر اپنے جہازوں کی طرف جاتے ہیں تو ہر ایک کے ہاتھ میں 20 سے 30 پاؤنڈ تک وزن ہوتا ہے۔ وہ اگر متحرک زینے کے بجائے سیڑھیاں استعمال کریں تو ان کے لئے بہت بہتر ہے۔

برسبیل تذکرہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ جہاز کے عملے میں سب سے زیادہ فٹ ہوا باز نہیں بلکہ ائر ہوسٹس ہوتی ہے۔ اگر چاہے تو وہ برقی زینہ استعمال کرلے کیونکہ اس کا تو اصل کام بہت سخت ہوتا ہے۔ دن کے دوران آپ دفتر میں ہوں یا گھر ، ان سنہری مقولوں پر عمل کریں۔

اگر آپ بیٹھ سکتے ہیں تو لیئے مت.
اگر آپ چل سکتے ہیں تو کھڑے ہوئے مت۔

ٹیلیفون جب بھی سنیں تو کھڑے ہو کر سنیں ۔ اگر آپ کو اپنے دفتر میں ہی کسی سےبات کرنی ہو تو انٹر کام استعمال کرنے کی بجائے چل کر اس کے پاس جائیں اور جتنی دیر بھی اس سے بات کریں ، کھڑے ہو کر کریں۔

اگر کسی کرسی یا ٹائپ رائٹر کو ادھر سے ادھر کرنا ہو تو موقع مت گنوائیں۔ جو عورتیں اپنی فنفس کے بارے میں باخبر اور حساس ہوتی ہیں، وہ رک کر مدد کے لئے مردوں کی طرف نہیں دیکھتیں بلکہ اپنا کام خود کر لیتی ہیں۔ ایسا کوئی بھی کام اس دن کے لئے اوور لوڈ ( زائد وزن یا کام ) کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔ خواہ اس میں 5 سیکنڈ ہی لگیں۔ اوور لوڈ کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ معمول سے زیادہ کام ۔ یعنی آپ معمول میں کوئی کام جتنا بھی کرتے ہیں تقریباً اس سے آدھا زیادہ۔ لیکن اس میں بہت ناپ تول کی ضرورت نہیں بس انداز اتنا ہونا چاہیے۔ اس سے ہماری مراد، استطاعت یا استعداد کی انتہا تک جانا بھی نہیں ہے کیونکہ ایسا قطعاً ضروری نہیں۔ اور ہر شخص کو اپنی زیادہ سے زیادہ استعداد کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

دوپہر کا کھانا کھانے کے لئے اپنے دفتر سے ذرا دور واقع ریستوران کا انتخاب کیجئے اور وہاں تک پیدل آئیں جائیں کہیں کسی کام سے جانا ہو تو اپنی کار کو ذرا پہلے ہی کھڑی کر دیں۔ اور اگر کسی بس یا زیر زمین گاڑی سے جانا ہو تو ایک سٹاپ پہلے اتر جائیں اور باقی فاصلہ پیدل طے کریں۔ خیال رہے کہ فاصلہ وقت کی نسبت زیادہ اہم ہے۔ چاہے آپ آہستہ چلیں یا تیز ، ترارورں کی وہی مقدار خرچ ہوگی۔ البتہ تین پھلنے سے آپ کی دل کی دھڑکن 120 تک پہنچ سکتی ہے جو اس دن کے لئے آپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جتنا تیز گے اتنا ہی دل اور پھیپھڑوں کے لئے مفید ہوگا ۔ جب آپ کام پر آئیں یا گھر واپس آئیں تو کچھ پر جوش حرکتوں سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کریں۔ مثلاً یونہی فائلوں کو اتھل پتھل کرنے لگ جائیں یا باورچی خانے کی الماری کھول پھینکئے۔ کسی کا نفرنس یا چائے کی دعوت میں کوئی بات کرنا ہو تو اچھل کر کھڑے ہو جائیں اور اپنا مدعا بیان کریں۔ بات کرتے ہوئے چلتے پھرتے رہیں ۔ الغرض نچلے بالکل مت بیٹھیں۔ کام ختم کر کے جب گھر جاتا ہو تو اپنی کار، بس یا ریل گاڑی کی طرف تیزی سے لپک کر جائیں۔ جب گھر پہنچیں تو کچھ دیر بچوں کے ساتھ نہیں کھیلیں اور پالتو جانور یا پرندوں کو بھی وقت دیں۔

رات کا کھانا تیار کرنے میں بیوی کی مدد کریں۔ میز کو قرینے سے سجائیں۔ کوئی زیر التوا کام کرلیں۔ اور کچھ نہیں تو لائبریری ہی سے کسی گوشے کو سنوار لیں۔ دن کے دوران متحرک ہونے کے مواقع ڈھونڈنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو پر سکون بنائے رکھنے کی کوشش بھی جاری رکھیں۔ مثلاً آپ اپنی گاڑی میں ہوں یا عوامی سوار پر نبض کی رفتار کم کرنے والی ہلکی پھلکی ورزش ضرور کرتے رہیں جیسے کہ اپنا پورا وزن گاڑی کی سیٹ پر گراد میں اور اس میں جنس جائیں۔ اپنے پیروں کو ڈھیلے چھوڑ کر بھاری ہونے دیں۔ اپنے کندھوں کو باہر کی جانب گرا دیں۔ اور چہرے پر ذراستی سی طاری کر لیں ۔ دن میں کسی بھی وقت اسی طرح چند لمحے گزارنے سے آپ کو سرور آ گئیں اور طمانیت بخش احساسات کا بے پایاں خزانہ ہاتھ آ جائے گا۔ کئی بار بعض افسران میرے پاس آکر کہتے ہیں کہ کسی ایسی میٹنگ میں جہاں ان کے فیصلوں یا بجٹ پر تنقید ہورہی ہو تو ان کو اپنی آنکھوں کے سامنے دھبے دھبے سے نظر آتے ہیں۔ میں انہیں فقط یہ کہتا ہوں کہ ایسے موقع پر وہ دونوں ہاتھ پیٹ پر رکھ کر سانس لیا کریں اور اس بات کا خاص طور پر خیال رکھیں کہ جب بھی وہ سانس لیں تو دونوں ہاتھ پیٹ کے ساتھ اوپر کو اٹھنے چاہئیں۔ کیونکہ پیٹ کے ذریعہ سانس لینا اپنے آپ کو پر سکون کرنے کے لئے مفید ہے۔