دونوں مہک انتہا ئیں ہیں دراصل زندگی یکسانیت سے بہت جلد اکتا جاتی ہے اور اس میں خواہ تھوڑی ہی سہی، تبدیلی کی ضرور خواہشمند ہوتی ہے ہفتہ وار تعطیل کے پس پردہ یہی عصر کارفرما ہے بڑ ت مسلسل کام کرنے کے بعد ایک دن کام نہ کرنا ، طبعیت پر اخوشگوار اثر ڈالتا ہے لیکن تبدیلی خواہ کسی جانب ہو، کام سے آرام کی طرف یا آرام سے کام کی طرف ، اس میں شدت نہیں ہونی چاہیے ایک دم ٹھنڈے پڑ جانا یا ایکدم پھٹ پڑنا دونوں غیر منطقی ہیں جن سے گریز بہتر ہے۔ مثلاً آپ نے بعض جذباتی قسم کے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ ” میں ڈٹ کر کام کروں گا اور پھر جی بھر کے کھیلوں گا عین ممکن ہے وہ دونوں میں سے ایک بھی نہ کر پائیں۔ یا بعض لوگ اس سے متضاد رویہ اپناتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں تو ریٹائرمنٹ کے بعد ایک آرام دہ کرسی اور ناولوں کا ڈھیر لیکر بیٹھ جاؤں گا اور بالکل فارغ رہ کر زندگی سے لطف اٹھاؤ نگا اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے لوگ وقت سے پہلے مر جاتے ہیں سو معزز قاری پر واضح ہو کہ کسی بھی معاملے میں انتہا پسندانہ رویہ نہیں اپناناچاہیے بلکہ درمیانی راستہ چن کر کامیابی کا زینہ پھلانگنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

 اسی معاملے کو ورزش پر اس طرح لاگو کیا جا سکتا ہے کہ اگر اگر ہم ٹینس کے دوسیٹ یا گالف کے 18 سوراخ روزانہ کھیل سکیں تو فٹ رہنے کیلئے کچھ اور کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم میں سے کس کے پاس اتنا وقت ، موقع یا رجحان ہے کہ وہ اتنی مہنگی اور تھکا دینے والی ورزش کو معمول بنا سکے ۔

پھر ایسی ورزش تو آپ کو صرف ہمارے پروگرام میں ہی ملے گی ۔ جو اتنی ہلکی پھلکی اور مختصر ہے کہ یوں لگے گا جیسے آپ نے ورزش کی ہی نہیں اور مقصد یعنی فٹنس بھی حاصل ہوگئی ۔ اب دیکھیں نا ہفتے بھر میں صرف 30 منٹ بھی کوئی وقت ہے یعنی پورے ہفتے کے اس لیے بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ ورزش ایسی نہیں ہونی چاہیے جو بیزار کن، جان تو ڑ اور ختم نہ ہونے والی محسوس ہو ۔ بلکہ یہایسی ہو جس سے آپ کیک کے ٹکڑے کیطرح لطف اندوز ہو سکیں اورمکمل فٹنس حاصل ہو جائے تو کیسا ہے۔