تیس سال پہلے یہی سمجھا جاتا تھا لیکن آج نہیں ۔ اب ہم سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ اپنے بچوں کو بہت جاذب نظر بنائے بغیر بھی طاقتور بن سکتے ہیں ۔ بلکہ اس کے بر عکس یہ بھی ممکن ہے کہ خوبصورت اور نمایاں بچوں کے باوجود آپ اتنے طاقتور نہ ہوں یعنیبڑے بڑے بچوں کی جسم کے لیے کوئی خاص ضرورت یا افادیت سامنے نہیں آتی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ بڑے پٹھوں میں طاقت بھی زیادہ ہو یا ان سے کارکردگی بہتر ہو یا بہتر کارکردگی دکھانے والے پٹھے صحتمند بھی ہوں۔ تو عملا ما سوائے ایسے لوگوں کے جنہیں بلحاظ پیشہ بھاری وزن اٹھانے کے لیے عظیم الجثہ ہونے کی ضرورت ہوتی ہے آج تمام چمپین حضرات کا متفقہ خیال ہے کہ پٹھے چھونے ہی ہونے چاہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے فٹنس سکھانے والے ایوانوں تک یہ بات اب تک نہیں پہنچی اور وہ آج بھی غیر معمولی تم نظر آنے والے جسم کا اس پر چار کرتے ہیں جبکہ مدت سے یہ نظر یہ متروک ہو چکا ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں ہارورڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر ڈڈلے سارجنٹ نے ان ورزشوں اور جمناسٹک کے طور پر طریقوں کو جید پدر تقانات کی روشنی میں ڈھالنا شروح کیا جن کی ابتدا سویڈن اور جزئی سے ہوئی تھی۔ در اصل نذنبره بالا و مانوں پر ایک جائے اور نشین نے زرعی فارموں پر ہم ایسا تھی اور دونوں کا زور نامہ کو خود بصورت بنانے پر تھا۔ جبکہ ڈاکٹر سارجنٹ نے مثالی مرد اور عورت کے نظریہ کی بنیاد رکھی۔ اپنی لیبارٹری میں انہوں نے تفصیلی چارٹ بنا کر یہ سمجھنا یا کہ بازوؤں، کر ، چھاتی اور ٹانگوں کا بہترین ساز کیا ہو سکتا ہے۔ اور ایسے اعضا ء بنانے کے لیے انہوں نے ایک ایسا سسٹم متعارف کروایا جو ان کے معیار کے مطابق جسم کو مثالی بنانے میں کامیابی حاصل کرے۔

اس طرح ڈاکٹر سارجنٹ کا بھی سارا زور مثالی جسم پر تھا جس سے فٹنس کچھ بہتر تو ہوئی لیکن ان کا اصل مدعا فٹنس نہیں تھا۔ آج بھی اسی خام خیالی کا زور ہے۔ کسی بھی باڈی بلڈنگ جم ، ہیلتھ کلب میں چلے جائیں وہاں آپ کو تخیلاتی دیوتاؤں کے مجسمے یا ایسے عملا غیرانسانی وجود رکھنے والے مردوں اور عورتوں کی شبیبات بنی نظر آئیں گی ، جن کا حقیقت سے دور پرے کا بھی واسطہ نہیں۔ یہ ادارے ایسے جسم بنانے میں ہی سرگرداں ہیں انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ انفرادی سطح پر کمی بیشی بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور نہ ہی وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ایسا کرنے سے جسم کے اندر کس قسم کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں خواہ کوئی دل کی کسی خوفناک بیماری کے نزدیک ہی جا پہنچے یا اپنے آپ کو پرسکون رکھنے کے قابل بھی نہ رہے۔ ان پر تو ایک ہی دھن سوار ہے کہ جو بہتر نظر آتا ہے وہی فٹ ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے اور نہ کسی کو بتاتے ہیں کہ ہالی وڈ کے بظاہر خوبصورت اور سڈول جسم رکھنے والے ہیرو، پتلی کمر والےہونے کے ساتھ ساتھ معدے یا انتڑیوں میں زخم کے مریض بھی ہو سکتے ہیں۔ بظاہر عظیم الجثہ نظر آنا اچھا تو لگتا ہے لیکن یہ ایک فٹنس پروگرام کے اضافی فائدے کے طور پر بھی ممکن ہے لیکن فٹ بننے کے لیے بنیادی ضرورت یا شرط کا درجہ نہیں رکھتا۔ اس لیے کسی فٹنس پروگرام کا مرکزی نقطہ بھی عظیم الجثہ بن نہیں ہونا چاہیے۔ اصل محج نظر تو ایک ایسا معیاری جسم ہونا چاہیے جو طاقت ور ہونے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے جسمانی اور بہنی دباؤ سے نبٹنے کا اہل بھی ہو۔

ایک اور ستم ظریفی یہ ہے کہ نارزن جیسے جسم کو فٹنس کا مظہر بنانے کے لیے اعضاء یعنی ایک بڑی چھاتی بڑے بڑے کندھے اور مضبوط نظر آنے والے موٹے موٹے بازو، در حقیقت کا ر کر دگی کم کرنے کا سامان بھی بن سکتے ہیں کیونکہ یہ ہائپر ٹرافی یا پچھوں کے حد سے زیادہ بڑے ہو جانے کا شاخسانہ ہوتی ہے جسکا مطلب یہ ہوا کہ خواہ مخواہ کا فالتو بوجھ اٹھائے اٹھائے پھرنے سے دل پر نا خوشگوار اور غیر ضروری بوجھ کے علاوہ چلنے پھرے میں دشواری ناخی بھی تو کسی طرح قابل قبول نہیں ٹھہرتی ۔ کیونکہ یہ موٹاپے کی ہی ایک صورت جانتی ہے جس میں چربی کے خلیے مطلوبہ سائز سے کہیں زیادہ بڑے ہو جاتے ہیں اور پٹھوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ تو گویا آپ جسم کو خوبصورت بناتے بناتے ایک مہلک صورتحال کو آواز دے کر اپنی طرف متوجہ نہیں کر رہے؟ یقینا ایسا ہی ہے۔ تو کیا دانشمندی کا تقاضہ یہ نہیں کہ اس سے فی الفور کنارہ کشی اختیار کی جائے اس سارے کھیل میں اصل مجرم وہ لوگ ہیں جو یہ گمراہ کن تصور جاگزیں اور اجاگر کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ ماورائی نظر آنا ہی سب کچھ ہے۔جو بھی اس حسین جال میں پھنستا ہے وہ کہیں کا نہیں رہتا۔جب تک لوگوں کے ذہن نہیں ہو جاتے صحیح تصور بھی محال ہے۔ جسم میں کر کے کم از کم ایک توڑ دستی محنت ہی اگر فٹنس کا راستہ ہے تو عام لوگ اسی لئے ایسی ورزش سے دور بھاگتے ہیں بلکہ ہر طرح کی ورزش کو وبال جان خیال کرتے ہیں ہماری زندگی میں پہلے ہی سخت ضابطوں اور مجبوریوں کی حکمرانی ہے تو کیا یہ ضروری ہے کہ ان میں غیر حقیقی اہداف، جاں گسل ورزش ، شدید غذائی پابندیوں ۔ قاربت سے گریز جیسے غیر انسانی اشغال کی آمیزش فتی ان کے لغو خیالات کی بھاری اور جان کر کے اسے مزید بے کیف اور روکھا پھیکا بنادیا جائے۔

میں دراصل کہنا یہ چاہتا ہوں کہ درزش بری چیز نہیں البتہ ایسے کڑے اور کٹھن معمولات کے خلاف ہوں مثلا صبح ٹھیک 6 بجے اٹھ کر کھڑکیاں کھول پھینکئے تازہ ہوا کے دس سانس اندر کھینچئے فلاں فلاں ایک درجن ورزشیں کیجئے یخ بس یہی نسل لیجئے پھر سمندری گھاس اور وٹامن کی گولیوں کا ناشتہ کیجئے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کچھ اچھی صحت کیلئے قطعا غیر ضروری ہے جس سے فائدے کی نسبت نقصان زیادہ ہو سکتا ہے۔

لیکن اس کا مطلب ہرگز ہرگز یہ مت لیں کہ تازہ ہوا میں سانس لینا صیح نہیں یا ورزش مفید نہین یا صحت بخش غذا منع ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ اپنے آپ کو کسی ایسے پروگرام میں مت جگڑیں جسے آپ کا دل نہیں مانتا یا پسند نہیں کرتا اور جو چیز دل کو پسند نہ ہو وہ یقینا ہے لذت اور بوجھ نظر آتی ہے اکثر لوگ پہلے ہی ایسے پابندیوں میں پھنسے ہوئے ہوتے ہیں کہ اتنے بجے اٹھو ، اتنے بجے کام پر جاؤ ایک خاص رفتار سے کام کرو اور کم از کم اتنی رقم ضرور کمانی ہے علی ھذا القیاس۔ ایسی پابندیوں کا پہلے ہی بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے اب ان کے اوپر ایسی مزید غیر ضروری پابندیوں کا اضافہ، جماعت نہیں تو اور کیا ہے۔

ایک بات کہہ کر اس باب کو ختم کرتا ہوں کہ جیسے کوئی میزبان اس وقت تک مطمئن نہیں ہوتا جب تک اسے مہمان کھانے پینے کی اشیاء سے ناک تک ٹھلسے ہوئے نظر نہ آئیں ۔ یہی کچھ ہم ورزش کے بارے میں کرتے ہیں کہ ورزش اس وقت تک ورزش ہی نہ یںتا وقتیکہ مصیبت نہ بن جائے۔