اگر آپ اپنی طرز زندگی سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ بری طرح پھنے ہوئے ہیں تو اب بھی وقت ہے کہ صورتحال کا گہرا تجزیہ کیجئے۔ کہیں آپ کے کام کا روبار یا گھر یلو صورتحال کی وجہ سے تو ایسا نہیں ہو رہا۔ وجہ جاننے کے بعد فورا اس سے چھٹکارا پانے کی ترکیب کریں ۔ کسی بھی آجر یا شریک حیات کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی سے اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق چھین لے۔ اگر آپ بلوں ، خرید و فروخت اور بچوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں تو سمجھیں کہ خطرے کی گھنٹی بجنے ہی والی ہے آپ اپنے من پسند کام نہ کر پارہے ہوں تو دینی الجھن دگنی ہو سکتی ہے۔ ان سب سے بڑھ کر اگر آپ کو آئینے میں اپنا سراپا دیکھ کر شرم محسوس ہو تو فورا اپنے آپ کو بدل ڈالئے تا کہ مزید نقصان سے بچ سکیں۔ یہ تبدیلی لانے کے تین طریقے ہیں۔

سب سے پہلے آپ یہ مان لیں کہ ورزش بے حد اہم ہے۔
دوسرے: اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود ورزش کیلئے وقت نکالئے اور اسے دوسری ہر چیز پر ترجیح دیں۔
تیسرے: ورزش کے بارے میں اپنے خیالات کو بدلئے۔

ورزش کرنا ہم میں سے ہر ایک کے لئے مشکل ہے ہم اسے نہ کرنے کے 15 بہانے بنا سکتے ہیں مثلاً یہ ہمارے رہن سہن کے برعکس ہے، چونکہ اور کوئی نہیں کرتا لہذا ہم کریں گے تو ہمارا مذاق اڑے گا ، اب ہمارے پاس وہ سب کچھ کرنے کے لئے موٹر کار موجود ہے جس کیلئے پہلے پٹھوں کو استعمال کیا جاتا تھا، ورزش کیلئے ہمارے پاس سہولتیں کم اور محدود ہیں، ہمیں اس کی مہارت نہیں ہے، جب بھی ہم نے ورزش کرنی ہو تو کوئی ایسا کام در پیش ہو جاتا ہے جو اس سے بہتر ہو، ہمیں کچھ زیادہ ضروری کام کرنے ہیں، ہم گر پڑیں گے، ہم مضحکہ خیز لگیں گے، اس سے ہم تھک جائیں گے اور ہمارا جسم اکڑ جائے گا، ہمیں دل کا دورہ پڑسکتا ہے اس سے ہمارا وقار کم ہو جائے گا، ہمیں سر درد یا جسم میں درد کی تکلیف اٹھانا پڑے گی وغیرہ وغیرہ۔

کبھی کبھی ورزش کے خلاف طیبی عذر بھی گھڑے جاتے ہیں۔ میں ایک ایسے ڈاکٹر کو جانتا ہوں جو یہ کہتا ہے کہ ہماری طبعی عمر کیلئے دل دھڑکنے کی تعداد مقرر ہے۔ ورزش سے چونکہ دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے لہذا آپ جلدی مرجائیں گے۔ اسلئے کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے دل کو تیز دھڑکنا پڑے۔ یہ دلیل انتہائی بوری اور پھپھی ہے۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسا آدمی جو بالکل فٹ ہو اس کی نبض ایسے آدمی کی نسبت جو بالکل ورزش نہ کرتا ہو، 10 بار کم چلتی ہے۔ اس طرح عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ ورزش کرنی چاہیے ہم سب یہ جانتے ہیں کہ ہماری کام کرنے کی صلاحیت عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ اس کی وجہ واقعی بڑھا پا ہوتا ہے یا وہ تبدیلی جو ہمارے معمولات میں در آتی ہے۔

دراصل جیسے جیسے ہم بوڑھے ہوتے جاتے ہیں کام کم کرنے لگتے ہیں۔ بس مسئلہ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ ہمارے کم متحرک ہونے سے ہمیں زور لگانے کی عادت ہی نہیں رہتی چنا نچہ نتیجہ یہ نکلا کہ جیسے جیسے ہم متحرک ہونے سے ہمیں زور لگانے کی عادت ہی نہیں رہتی۔ چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ جیسے جیسے ہم متحرک ہوتے جائیں گے، ہماری زیادہ کام کرنے کی صلاحیت بھی بڑھتی جائے گی۔