آپ آٹھ ہفتوں کے تین مرحلہ وار پروگرام کریں گے۔

پہلے مرحلے میں آپ بافتوں کو بڑھائیں گے۔ دوسرے مرحلے میں قوتِ برداشت بڑھے گی اور تیسرے مرحلے میں جسمانی طاقت بڑھے گی۔

بلاشبہ پہلی ترجیح پچھوں کا حجم بڑھاتا ہے۔ وزن اٹھانے والوں کی اصطلاح میں اسے لحمیات بھر دینا کہا جاتا ہے۔ اصل میں لحمیات جسم کی تعمیر میں اینٹوں کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اور سکڑنے کی صلاحیت بھی انہی میں ہوتی ہے جس سے بدن حرکت کرنے اور ان کا حرکت سے پہلے ہے۔ جیسے کے قابل بناہونا اسی طرح رات بھر کی غذا نیا ہونا۔ بعض تن ساز اور وزن اٹھانے والے افزائش کے اور طاقت کی گولیوں پر تکیہ کرتے ہیں لیکن انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جسم اپنی ضرورت سے یہ زیادہ کوئی چیز بھی جسم میں جمع نہیں کرتا بلکہ فالتو مقدار کو نکال باہر کرتا ہے۔ یا پھر انہیں کسی اور جز و خوراک کی طرح چربی میں تبدیل کر لیتا ہے۔ اور اصل میں ورزش ہی ہے جو پٹھوں کوبناتی ہے۔

جب آپ کے پاس پٹھوں کا کافی وجود بن جاتا ہے تو اس کو خون سے سیراب کرنے کے لئے خوردبینی رگوں کا جال بچھ جاتا ہے اور ان میں ایسی کیمیائی تبدیلیاں جنم لیتی ہیں جو قوت برداشت بڑھانے کا وسیلہ بنتی ہیں اور تب ہی آپ ٹینس کھیلنے، برف پر پھسلنے یا کس بھی کام کے دوران پٹھوں کو سکڑنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اب آپ کے پاس دوران خون اور کیمیائی عمل کی مطلوبہ مقدار دستیاب ہے اس لئے تیسرے مرحلے میں پٹھوں کو طاقت سے لبریز کرنے ، اعصابی نظام کو فعال بنانے اور مزید کیمیائی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہاں پٹھوں کی قوت برداشت اور طاقت میں فرق جاننا ضروری ہے۔ پٹھوں کی طاقت کسی بھاری وزن کو تھوڑی دیر تک اٹھانے رکھنے کا نام ہے۔ جبکہ قوت برداشت کوئی کام مسلسل اور طویل دورانئے تک سرانجام دے سکنے کو کہتے ہیں۔ دونوں میں فرق واضح ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ آپ خوفناک حد تک طاقتور ہوں لیکن قوت برداشت میں پھنڈی نکلیں۔ اگر ہم کسی شہ زور مکہ باز کا مقابلہ ایک ایسے مد مقابل سے کروادیں جو قوت برداشت میں بہتر ہو تو ابتدائی ایک دو راؤنڈ تو شہ زور کا پلہ بھاری رہے گا۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا جائیگا ، قوت برداشت میں برتری رکھنے والا غالب آنا شروع ہو جا ئیگا اور بالآخر فاتح قرار پائے گا۔ شدن در مکہ باز ابتدائی راؤنڈوں میں ہی اگر ناک آؤٹ کر دینے والا مکہ مارتے میں ناکام رہا تو اس کی ہار یقینی بن جائے گی۔ اس لئے آج کل مکہ باز مضبوط اور بھاری بازوؤں پر ہی تکیہ نہیں کرتے کیونکہ مقابلے کے دوران انہیں استعمال کرنے میں کافی وزن اٹھانا پڑتا ہے۔ اس کی بجائے وہ کندھوں کو بھاری بنانے کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں تا کہ وہ اپنے بازوؤں کو ز در دار طریقے سے مخالف پر استعمال کر سکیں ۔

جب آپ کسی بڑے اور موٹے بازوؤں والے باکسر کو دیکھیں تو سمجھ لیں کہ اس کی ہمت چوتھے یا پانچویں راؤنڈ تک ہی اس کا ساتھ دے پائے گی۔ مکے باز یہی بات ذہن میں رکھ کر مقابلے کی تیاری کرتے ہیں۔ چونکہ فارمولا یہ ہے کہ طاقت کمیت x اسراع ۔ اگر آپ کا حجم تو زیادہ ہو لیکن اس کو تیزی سے حرکت میں نہ لاسکیں تو طاقت میں مار کھا جائیں گے۔ اس کے برخلاف ایک تنکا بھی محض ہوا کے زور پر اڑتا ہوا آ کر ٹیلیفون کے کھمبے میں پیوست ہو جائے گا۔ اسی لیئے سائز یا حجم بڑھانے والی ورزشیں طاقت اور قوت برداشت بڑھانے والی ورزشون سے یکسر مختلف ہوتی ہیں اور تینوں کو بیک وقت کرنا غلط ہے۔ ورزش ایک ہی ہو سکتی ہے لیکن اسے کرنے کا طریقہ مختلف ہوگا۔

پہلے مرحلے یعنی پٹھوں کا حجم بڑھانے کی ورزش کرتے ہوئے آپ تیسرے مرحلے یعنی طاقت بڑھانے والی ورزش نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اس کے لئے پہلے آپ کے پٹھوں کا بڑا ہونالازمی ہے۔ بعینہ آپ دوسرے مرحلے میں قوت برداشت بڑھانے والی ورزش سے شروع کر کے پٹھوں کا حجم بڑھانے کا نہیں سوچ سکتے۔ اس سے نہ تو نئے پٹھے کافی مقدار میں نہیں گئے اور نہ ہی قوت برداشت میں اضافہ ہو سکے گا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بنیاد کے بغیر مکان بنانا۔ تیسرے مرحلے تک پہنچتے پہنچتے آپ کی جسمانی حالت اتنی اچھی ہو چکی ہوگی اور آپ کے پاس قوت برداشت کے حامل نئے پٹھوں کا اتنا حجم دستیاب ہوگا کہ آپ با آسانی طاقت بڑھانے کے پروگرام پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں۔

صرف حجم بڑھانے سے آپ طاقتور نہیں بن سکتے۔ جبکہ اس کے برعکس حجم بڑھائے بغیر بھی آپ طاقتور ہو سکتے ہیں۔ آپ کے تمھیں منٹ فی ہفتہ پروگرام میں سے چھے بنانے کا یہ عمل صرف 4 منٹ روزانہ، ہفتے میں تین بار پہلے 16 ہفتوں کے لئے اور آخری 8 ہفتوں میں صرف 2 منٹ روزانہ، ہفتے میں تین بار پر مشتمل ہوگا۔ یعنی 24 ہفتوں کے بعد آپ موزوں پٹھوں اور خون سے سیراب خلیوں والے جسم کے مالک بن جائیں گے۔ آپ مضبوط بھی ہوں گے اور آپ میں قوت برداشت بھی ہوگی اور اس میں آپ کا کل وقت کتنا لگے گا صرف 4 گھنٹے!