برف پر فوجی مشقوں میں انسانی توانائی کا تجزیہ

تحقیق کی ضرورت

نیشنل اکیڈمی آف سائنسز نے مجھے یہ ذمہ داری سونپی کہ برف پر فوجی مشقوں میں انسانی توانائی کے خرچ کا تجزیہ کیا جائے۔ اس وقت امریکہ سوویت یونین کے ساتھ ممکنہ جنگ کی تیاری کر رہا تھا، اور اس کا احتمال ایلاسکا میں موجود تھا۔ حکومت یہ جاننا چاہتی تھی کہ سرد ماحول میں اپنے سپاہیوں سے کس قسم کی کارکردگی کی توقع رکھی جا سکتی ہے اور انہیں کتنی خوراک اور توانائی کی ضرورت ہوگی۔

تجربات کا آغاز

ہم نے ان مشقوں کے دوران جو نیو ہمپشائر میں ہورہی تھیں، اپنے تجربات شروع کر دیے۔ جلد ہی یہ بات ثابت ہو گئی کہ نبض کی رفتار کے علاوہ کوئی اور چیز یہ نہیں بتا سکتی کہ کوئی کام کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اگر ہم برف گاڑی پر زیادہ وزن لاد دیتے یا اس کی رفتار تیز رکھتے تو سپاہی بے حال ہو جاتا۔

نبض کی رفتار اور کارکردگی

کیونکہ نبض کی رفتار خود تکلیف دہ ہو جاتی تھی، یہ واضح اشارہ تھا کہ فرد اپنی توانائی بہت تیزی سے خرچ کر رہا ہے اور جلد ہی تھک کر گر جائے گا۔ چونکہ ہم نے تجربے کے لئے ایسے افراد کو منتخب کیا تھا جن کا جسمانی Fitness زیادہ نہیں تھا، اس لئے حاصل ہونے والی معلومات عام لوگوں پر بھی صادق آئیں گی۔ اگر نبض کی رفتار دیر تک تیز رہے تو کام کرنے کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے۔ ہم نے نوٹ کیا کہ جب نبض کی رفتار 150 فی منٹ سے زیادہ ہو جائے تو کسی سے آدھ گھنٹے سے زیادہ کام نہیں لیا جا سکتا۔ اگر یہ رفتار 120 فی منٹ تک رہے تو ایک حد تک کام ممکن ہے۔ ان تجربات اور اعداد و شمار سے ہم نے صنعت و حرفت کے لئے نئے معیار مقرر کر لئے اور کارکنوں کے لئے نبض کی رفتار پر مبنی نظام الاوقات فراہم کیا۔

نبض کی رفتار اور فٹنس: ایک اہم دریافت

ورزش کے جدید طریقے

نبض گن کر ورزش کرنے کے طریقے کا عملی مظاہرہ دو اہم مواقع پر ہوا۔ ایک، خلا بازوں کے طویل خلائی سفر کے لئے اعلیٰ فٹنس پروگرام کی تلاش؛ دوسرا، ڈاکٹر فوکس کا یہ خیال کہ امریکہ کی سب سے مہلک بیماری، دل و شریان کی بیماریوں کی روک تھام میں ورزش کا کردار ہے۔ دراصل، یہ دونوں امور آپس میں جڑے ہوئے ہیں، کیونکہ خلا بازوں کی فٹنس پروگرام ہی امراض قلب و شریان کی روک تھام کا ضامن ہے۔

فٹنس کا درست معیار

یہ ضروری ہے کہ ورزش فٹنس کو برقرار رکھے، مگر اتنی سخت نہ ہو کہ نقصان پہنچائے۔ اس کے لئے، صرف کارکردگی کی بجائے فعلیاتی کوشش پر زور دینا ضروری ہے۔ خلا بازوں کے طویل خلائی سفر کے دوران صحت اور فٹنس کو برقرار رکھنے کے لئے، ڈگلس لاک ہیڈ اینڈ کمپنی کے خلائی شعبے نے مجھے خصوصی تجربہ گاہ فراہم کی۔

کشش ثقل کی عدم موجودگی میں ورزش

ہماری تلاش کا محور کوئی عام فٹنس پروگرام نہیں تھا۔ ہم نے ان لوگوں کے لئے سوچنا تھا جنہیں دو دو سال تک خلا میں رہنا تھا۔ جب آپ بار بار کوئی ورزش کرتے ہیں تو آپ اسے آسانی سے انجام دیتے ہیں، کیونکہ آپ کی کارکردگی بہتر ہوتی جاتی ہے، جس سے یہ غلط تاثر ملتا ہے کہ آپ کی صلاحیت بھی بہتر ہو گئی ہے۔ دراصل، عدم کسرت کی وجہ سے آپ کی فٹنس کم ہو رہی ہوتی ہے۔

خلا بازوں کی جسمانی حالت

اگر کوئی خلا باز اپنی فٹنس کھو دیتا ہے اور دوران پرواز وہ کچھ نہیں کر پاتا جس کے لئے اسے خلا میں بھیجا گیا تھا، تو یہ مسئلہ کشش ثقل کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مجھے مسئلے کو جسم کے باہر سے نہیں بلکہ اندر سے حل کرنا تھا۔ خلا باز کو اندرونی طور پر مضبوط بنانے کے لئے، میری تحقیق نے دل کی دھڑکن کی رفتار کو کامیابی کی راہ سجھایا۔

دل کی دھڑکن کا کردار

دل کی دھڑکن کی رفتار سے پتہ چلتا ہے کہ خلا باز کو مناسب کسرت مل رہی ہے یا نہیں۔ اگر دل کی دھڑکن کم ہے تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ورزش ناکافی ہے، اور اس پر کام کا دباؤ بڑھانا ضروری ہے۔ ہمارے پیش نظر خلا باز کی بیرونی کارکردگی نہیں بلکہ اندرونی کیفیت تھی۔

نئی ورزش کی تکنیک

میں نے ایک جامع ساکن بائیسکل ایجاد کی، جو انسانی جسم کو خودکار درجہ حرارت کنٹرول کرنے والا آلہ بناتی ہے۔ اس سے ورزش کے دوران دل کی رفتار خود بخود مطلوبہ سطح پر آ جاتی ہے۔ ایک چھوٹا کمپیوٹر ہر سات سیکنڈ میں دل کی اصل اور مطلوبہ دھڑکن کا فرق ناپتا ہے اور پیڈلنگ کی شدت کو درست کرتا ہے۔

ورزش کے فوائد

اس طرح، دو مقاصد حاصل کیے گئے۔ پہلی بات، ہوسٹن میں واقع طبی مرکز خلا باز کے قلب و شریان کے نظام میں تبدیلیوں کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگا سکتا ہے۔ دوسری بات، خلا باز مطلوبہ رفتار قلب پر روزانہ ورزش کر سکتا تھا، جو ہمارے اور خلا بازوں کے تقابلی جائزے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ ہم کشش ثقل کے زیر اثر ہوتے ہیں، جس سے ہماری ورزش خودبخود ہو جاتی ہے۔ جبکہ خلا بازوں کو کششِ ثقل سے آزاد ہونے کی وجہ سے کم از کم 90 منٹ روزانہ ورزش کرنا پڑتی ہے تاکہ وہ خلائی سفر کے دوران اپنے فرائض کی انجام دہی کے قابل رہ سکیں۔