جسمانی ورزش کا بس ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے اعضاء کی فعلیاتی صحت ، جس سے آپ اپنے جسم کی مختلف خوبیوں مثلاً پٹھوں کی طاقت اور دل و پھیپھڑوں کی قوت برداشت میں اضافہ کر سکیں۔ اس کیلئے پریڈ گراؤنڈ کی یکسانیت بالکل بھی ضروری نہیں جس میں تال میل ، فاصلے، وقت، انداز یا حرکت کے متعین دائرے کی پابندی کرنی پڑتی ہے بلکہ یہ کتنا فطری محسوس ہوتا ہے کہ ہر شخص اپنی ضرورت کے مطابق ورزش چنے اور اسے اپنی مرضی کے مطابق اپنے جسم کو حرکت دینے کی آزادی ہو۔

اب اس سے یہ مطلب بھی نہ لیا جائے کہ اکٹھے ہو کر ورزش کرنا اچھا نہیں۔ جبکہ کچھ لوگوں کیلئے سخت ضابطوں والی کسرت بھی ایک گروپ کی صورت میں ناچنے یا گانے کی طرح پر لطف ہو سکتی ہے۔ بحسینہ فٹنس کی ورزش کو بھی آپ اپنی مرضی کے مطابق دلچسپ بنا سکتے ہیں۔

میرے لیے مشکل ترین کام لوگوں کو اس بات کیلئے قائل کرنا رہا ہے کہ ہفتے میں ایک پاؤنڈ سے زیادہ وزن کم نہ کیا جائے اور انہیں اپنی اندرونی ترتیب و آہنگ کے مطابق ورزش کرنی چاہیے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ادارتی نظم ونسق کی مجبوریاں آڑے آجاتی ہیں اور روایتی معاملات کو کسی نئی تبدیلی پر فوقیت دے کر مثبت مقاصد کی قربانی دے دی جاتی ہے لیکن نام نہاد اصولوں سے سرمو انحراف نہیں کیا جاتا  مثلاً ایک دفعہ مجھے بحریہ کے زیر تربیت افسروں کی جسمانی ٹریننگ کیلئے جانا پڑا۔ میں نے انکو بٹھا کر سب سے پہلے یہ سمجھایا کہ چونکہ انہیں اپنے فرائض منصبی کے سلسلے میں زیادہ تر بحری جہازوں پر ہی رہنا ہوگا ۔ جہاں نقل و حرکت کے مواقع محدود ہوں گے ۔ لہذا انہیں عام ورزشوں کی بجائے ایسی ورزشوں کی ضرورت ہوتی ہے جنہیں کیبن کے اندر بھی کیا جاسکے ۔ انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا تو میں نے ان کیلئے اس قسم کا پروگرام ترتیب دیا اور ہر کسی سے کہا کہ اس پر عمل کر کے دیکھیں جسمیں یہ آزادی بھی شامل تھی کہ وہ ترتیب اپنی مرضی کی اختیار کر سکتے ہیں اور جب بھی دل چاہے ورزش روک سکتے ہیں ۔ یعنی ایسا نہیں کہ فلاں ورزش اتنی دیر اور اتنی بار کرنی ہے۔ لیکن انکا افسر یہ دیکھ کر گھبرا گیا کہ اگر اگر افسران بالا میں سے کسی نے دیکھ لیا کہ سخت نظم وضبط اور معمول کو نہیں اپنایا جارہا تو اس کیلئے مصیبت ہو جائے گی۔

نتیجتا ایک مفید پروگرام جس سے کیڈٹ بڑے خوش تھے، روایات اور ضابطوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اور پرانے دقیانوسی سسٹم کی طرف مراجعت ہوگئی جو کڑی اور مقررہ تعداد اور معینہ وقت میں جکڑا ہوا تھا۔ جس کی ورزشیں گود یکھنے والوں کو تو اچھی لگتی تھیں لیکن کرنے والوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اتنے سال گزرنے کے بعد ان کیڈٹوں میں سے ایک جس کا نام سٹیومر تھا مجھے ملا تو اس نے بتایا کہ وہ آج بھی نیوی چھوڑنے کے باوجود میری بتائی ہوئی ورزشیں کر رہا تھا اور بڑا خوش و مطمئن تھا۔

فضائی کیڈٹوں کو بھی سخت ترین فنس پروگرام کرنے پڑتے ہیں جن کا مقصد انہیں فٹنس کے اعلیٰ ترین معیار کا حامل بنانا ہوتا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ جب وہ تربیت ختم کر کے اپنی ڈیوٹی سنبھالتے ہیں تو ایک سال کے اندر ہی اندر ان کی تو ند پھر نکل آتی ہے۔ جہاز اڑانے والے طبعا بڑے انفرادیت پسند واقع ہوئے ہیں۔ وہ شدید پابندیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ اس لئے جسمانی ٹریننگ کے علی الاعلان مخالف ہوتے ہیں۔ وہ صرف فٹ بننا چاہتے ہیں اور میری طرح سخت ورزش سے دور بھاگتے ہیں۔ اس کا مجھے تب علم ہوا جب مجھے سان انتونیو میں واقع ائیر فورس سکول آف ایوی ایشن اینڈ ریسرچ میں فٹنس کی تربیت کیلئے بلایا گیا۔ وہ ایسا پروگرام چاہتے تھے جو جہاز اڑانے کے حوالے سے ضروری فٹنس کی تربیت کیلئے بنایا گیا ہو۔ وہ ایسا پروگرام چاہتے تھے جو جہاز اڑانے کے حوالے سے ضروری فٹنس مہیا کرے ۔ میرے کانوں میں ایک میسجر کے الفاظ آج بھی گونجتے ہیں۔ جو اس نے انتہائی بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے کہے تھے کہ ” جہاز اڑانے کیلئے کیا اس کو اٹھانے کی طاقت ہونا بھی ضروری ہے؟

جب خلا بازوں کے لیے فٹنس پروگرام کی جستجو ہوئی تو فضائیہ کے ڈاکٹروں اور جسمانی تربیت کے ماہرین نے ان کیلئے انتہائی سخت پروگرام یکسر رد کر دیا۔ انکا جواز یہ تھا کہ ہم میں سے ہر ایک خود اس قابل ہے کہ وہ ضروری فٹنس پروگرام خود ترتیب دے جو خلا بازی کی بھاری مشقت سے ہم آہنگ ہو ۔ یہ بڑی منطقی بات تھی جو آپ کے لئے بھی رہنمائی کا باعث ہو سکتی ہے۔

 الغرض ایک بات آپ کے ذہن میں واضح ہونی چاہیے کہ فٹنس پروگرام سے آپ حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں۔ ایک اور طرح سے میری بات آپ کی سمجھ میں آجائے گی۔ جان سمتھ ، جو چوتھائی میل کی دوڑ میں عالمی ریکارڈ رکھتا ہے، جب بھی ورزش کیلئے سوچتا ہے اس کے ذہن میں ایک مقصد ضرور ہوتا ہے اور ہر بار جب وہ ورزش شروع کرتا ہے ایک نیا ہدف اس کے سامنے ہوتا ہے۔ یہی طرز عمل اختیار کر کے وہ عالمی چیمپئین بنا۔ آپ کی کوشش یہ ہونا چاہیے کہ آپ نے پچھلی دفعہ جتنی ورزش کی تھی اب اس سے کچھ زیادہ محنت طلب اور طویل دورانیے کی ہو یا ایسی ہو جس سے آپ کی دل کی دھڑکن کچھ تیز ہو جائے۔

سب سے مقدم یہ بات ہے کہ آپ وہی کام کریں جس کو کرنے سے آپ کو مزہ آئے اور وہ کام ہر گز مت کریں جس کیلئے اپنے او پر جبر کرنا پڑے اور یہ احساس ہو کہ آپ مجبور محض بن کے رہ گئے ہیں۔ ورزش کی تعریف اس طرح کی جانی چاہیے کہ یہ ایسی حرکات کا مجموعہ ہوتی ہے جو آپ کو ایک ہدف کے حصول میں مدد دیتا ہے۔ اسکی چند شرائط ہوتی ہیں جنہیں پورا کرنالازمی ہے ورنہ آپ فٹ نہیں بن سکیں گے۔